Tuesday, May 12, 2009

Proud Pakistan form U.A.E

زیادہ عرصہ نہیں گذرا مجھے اس صحرا میں (یعنی یو اے ای میں) ، پانچ سال ہو گئے ہیں ، یعنی وطن سے بچھڑے گیارہ برس ہو چکے ہیں ، درمیان میں ہاتھ لگانے کے لئے جاتا رہا ہوں ، وہ بھی شاید اس لئے کہ میری فیملی ابھی ادھر ہی ہے ، ورنہ شاید وہ بھی نہ جاتا ، برسوں گذر جاتے ، میرا پاکستان سے تعلق صرف اتنا ہوتا کہ میرا پاسپورٹ پاکستانی ہے )یہاں ایسے بہت سارے لوگوں کو جانتا ہوں)، مگر پھر بھی آج میرے دوستوں میں یعنی قریبی دوستوں میں صرف پاکستانی ہی ہیں ، میرے لباس میں شلوار قمیض لازمی ہے ، میں کھانے پینے کے معمالے میں پاکستانی کھانے پسند کرتا ہوں ، میں اردو بولنا اچھا سمجھتا ہوں ، یعنی میں اندر اور باہر سے پاکستانی ہوں ، وہ ٢٣ مارچ ہو ١٤ اگست ہو یا پھر ٢٥ دسمبر ، میں آفس میں فخر سے اپنے سینے پر پاکستان کا پرچم سجاتا ہوں ، یہ چھوٹا سا دھاتی پرچم ہے ، جو آج سے ١٢ سال پہلے میں نے کراچی سے لیا تھا ، اور پھر جب میں ادھر آیا تو میں اپنے ڈیپارٹمنٹ کا دوسرا پاکستانی اور جس جگہ بیٹھ رہا تھا وہاں کا اکلوتا پاکستانی تھا ، پھر کچھ عرصے بعد ١٤ اگست آیا ، میں نے اور عمران نے فیصلہ کیا کہ اس بار ہم سارے اسٹاف کو مٹھائی بانٹیں گے ، اور پھر پاک غازی کے گلاب جامن ہم نے سارے اسٹاف کو کھلائے ، جن میں انڈین ، فلپینو، لبنانی اور لوکل سب کو حیرت ہوئی کہ ایسا کبھی نہ ہوا تھا ، خاصکر انڈینز کو ، اور پھر ١٥ اگست کو جب انڈیا کا یوم آزادی تھا تو انڈین دوستوں کو بھی ایسا ہی کرنا پڑا ، مگر کیا کرتے انڈیا کا جھنڈا نہ مل سکا سینے پر سجانے کے لئے تو میں نے انٹرنیٹ سے جھنڈے کو پرنٹ کیا اور انڈینز میں بانٹ دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ہماری پہچان پاکستان ہوئی ، پہلے شاید کوئی اپنی پہچان نہ کروا سکا تھا ، پھر یہ سلسلہ چل نکلا ، حتہ کہ اب جب ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں سب پاکستانی ہیں ، تو بہت اچھا لگتا ہے ، کہ ہماری پہچان ہمارا وطن ہے ۔
مگر ۔۔۔۔۔ اب ہم سبکو ڈر لگتا ہے ، کیوں ۔ ۔ ۔ ہم دھشت گرد ہو چکے ہیں ، بیرون ملک ہماری پہچان اب دھشت گرد کے نام سے ہوتی ہے ، مجھے آج بھی ایک انڈینز دوست کی بات یاد آتی ہے کہ اظہر تم لوگوں کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ پاکستانی دھشت گرد بھی ہو سکتے ہیں ، مگر اب میں کیا جواب دوں کسی کو ، ساری دنیا ہمیں دھشت گرد کہ رہی ہے ، میں لاکھ کہوں کہ یہ ہمارے خلاف سازش ہے ، مگر کون مانے گا ، جب میرے اپنے ہم وطن ہی نہیں مانتے ، جی ہاں کچھ اپنے ہی لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان ہی غلط ہے ، کچھ نے تو یہاں تک کہ دیا کہ اب جب پاکستانی پاکستان نہیں جانا چاہتے تو دوسرا کیوں کوئی جائے گا ، وہ پہچان کو چھپانے لگے ہیں ، انہیں پاکستان کے نام سے شرمندگی ہوتی ہے ، مگر کیا واقعٰی ہی ایسا ہی ہے ، قصور پاکستان کا ہے یا چند ناعاقبت اندیش حکمرانوں کا ۔ ۔ ۔ خدا رہ پاکستانی رہیے پاکستان کی نمائندگی کیجیے پاکستان سے آپ ہیں

پاکستان آپ سے ہے ، پاکستان آپکی پہچان ہے
اور یہ بات بھی یاد رکھیے کہ آج جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ صرف اسلئے ہو رہا ہے کہ ہم اپنی پہچان کھو رہے ہیں ، ہم بھول چکے ہیں کہ یہ وطن کیوں حاصل کیا گیا تھا ، خاصکر ہم لوگ جو بیرون وطن اپنے وطن کے سفیر ہیں ، ہمارے اوپر دھری ذمہ داری ہے ، کہ ہم اپنے وطن کا مقدمہ لڑیں ۔۔۔ اور ثابت کریں کہ ہم وہ نہیں ہیں جو ہمیں پیش کیا جا رہا ہے ، شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ دینے سے کچھ نہیں ہو گا ، ہمیں بولنا پڑے گا ، اپنے اردگرد کے لوگوں سے ، اپنے آپ سے ۔ ۔ ۔ اور اپنے ہم وطنوں سے ۔ ۔ ۔ سیماب اکبرآبادی کہ یہ قطعہ جو انہوں نے ١٩٤٧ میں کہا تھا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کیوں بنا

کارواں ملت کا ، آ پہنچا زمین پاک پر
چاند تارہ جگمگایا پرچم اسلام کا
بٹ گیا ہندوستاں ، کعبہ وفا کا بن گیا
اور آخر پھر گیا ، رُخ گردش ایام کا

خدارہ جو گردش ایام کا رخ اس وقت تک بدل چکا ہے ،
اسے سمجھیے اور اقبال کی زباں میں بات یاد رکھیں


اے ارض پاک تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم
ہے خوں تیری رگوں میں اب تک رواں ہمارا

اور یہ بھی حقیقت ہے نا ۔ ۔ ۔

سالار کارواں ہے، میرِ حجاز اپنا
اس نام سے باقی آرام جاں ہمارا

No comments:

Remembering Rashid Minhas Shaheed on his 52nd martyrdom anniversary.

On this day at Goth Ahmed Shah, Sujawal on 20 August 1971, We remember and honor the sacrifice of pilot officer Rashid Minhas, A true hero w...